يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا )سورہ 4 آیت 54)
"اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے"
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :89
یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی ، تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ ہے ۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں:
( ۱ ) اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے ۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندہ خدا ہے ، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے ۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام ، دونوں کا مرکز و محور خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے ۔ دوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مد مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں ۔ ورنہ ہر وہ حلقہ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو ۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے ۔
( ۲ ) اسلامی نظام کی دوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے ۔ یہ کوئی مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت خدا کی واحد عملی صورت ہے ۔ رسول اس لیے مطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں ۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں ۔ کوئی اطاعت خدا رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے ۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ ۔ ” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔ “ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے ۔
( ۳ ) مذکورہ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ ان” اولی الامر“ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں ۔ ”اولی الامر “ کے مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں ، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر ، یا ملکی انتظام کرنے والے حکام ، یا عدالتی فیصلے کرنے والے جج ، یا تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار ۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے ۔ بشرطیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو ، اور خدا و رسول کا مطیع ہو ۔ یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کے لیے لازمی شرطیں ہیں اور یہ نہ صرف آیت مذکورہ صدر میں صاف طور پر درج ہیں ، بلکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے ۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں:
السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ ۔ ( بخاری و مسلم )
مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اولی الامر کی بات سنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ، تاوقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے ۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سننا چاہیے نہ ماننا چاہیے ۔
No comments:
Post a Comment