سید سبط حیدر زیدی
کربلا وہ عظیم انقلاب جو یقینااس کائنات کا بے نظیر انقلاب اور قیام تھا۔ وہ تحریک جو حق و باطل میں حد فاصل بنی تھی اور ہے، اور ہمیشہ انسانیت کے لئے مشعل ہدایتبن کرنورافشانی کرتی رہے گی اور اس کوکسی بھی طرح کے عذر اور بہانے کا موقع نہیں دے گی۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم)کے آخری لمحات تھے کہ فاطمہ زہرا (س) اپنے بیٹوں حسن و حسین (علیہما السلام) کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور فرمایا :"یا رسول اللہ! یہ دونوں آپکے بیٹے ہیں، ان کو کوئی چیز بطور میراث عطا فرمائیے"۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا :"میں حسنؑ کو اپنی ہیبت اور حسینؑ کو اپنی جرأت و شجاعت بطور میراث عطا کرکے جا رہا ہوں"۔
سن ۶۱ ہجری میں حسین بن علی (علیہما السلام) اموی ظلم و جور کے مقابلہ میں اپنی پوری میراث لئے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، دین کی راہ میں اپنی اور اپنے خاندان کی جان نچھاور کرتے ہیں اور تاریخ انسانیت میں نئے اور زریں صفحات رقم کرتے ہیں۔
کربلا، حریت، استقامت اور انقلاب کی بانی، کربلا نہ صرف عزا وماتم کا درس دیتی ہے، بلکہ صدیوں سے اب تک حق و باطل کی دائمی جنگ، دین و عقیدے کی راہ میں فداکاری اور جانبازی کے مرکز کی حیثیت سے مسلم اور غیر مسلم حریت پسندوں کے لیے الہام بخش اور نقش راہ ہے۔
جس طرح کہ امام حسین بن علی (علیہما السلام) نے اپنے مختصر مگر باایمان و شجاع انصار و اصحاب اور پر شکوہ عظمت کے ساتھ بے شمار اور سنگدل یزیدی افواج کے سامنے ڈٹ گئے اور کربلا کی سرزمین کو عشق و حماسہ وحریت کے دائمی میدان میں تبدیل کردیا۔ دنیا کے حریت پسند انسان بھی غاصبوں اور اہل ستم کے خلاف جدو جہد کرتے ہوئے اپنی تعداد اور ظاہری طاقت اور وسائل کو بنیاد نہیں بناتے نیز جہاد و استقامت کے وقت دشمن کی تعداد اور طاقت کو بھی خاطر میں لائے بغیر شوق و جذبہ جہاد میں محو ہوکر لڑتے ہیں سرکٹاتے ہیں لیکن کھبی سر نہیں جھکاتے۔
گوکہ کربلا بھی دیگر سرزمنیوں کی طرح ایک سرزمین ہے لیکن اس سرزمین کا دامن ابدیت تک پھیل گیا اور یہ سرزمین دلوں اورضمیروں کی انتہائی گہرائیوں پر اس قدر اثر انداز ہوئی کہ سن۶۱ ہجری میں روز عاشور سے لے کر آج تک ظلم و جور اور ظالم و ستمگروں کے خلاف امام حسین (علیہ السلام) کے نام سے سینکڑوں تحریکیں وجود میں آئی ہیں اور آتی رہیں گی۔
لیکن افسوس! جیسا واقعۂ کربلا کا حق ہے وہ ہماری افکار، ہنر اور ادب میں اپنا مقام حاصل نہیں کرسکا ہے، سوائے کچھ اشعار اور چند قابل قدر تصویر کشی اور مصوری کے، ہمیشہ عوامی سطح پر جلوہ گر رہا ہے اسی وجہ سے اسکے متعلق انجام پانے والی مختصر سی تحقیقی اور ادبی کاوشیں ہمیشہ تحریف اور مختلف خطروں سے دوچار رہی ہیں۔
واقعہ کربلا سے ہماری غفلت
عیسائیت کے منجملہ انحرافات میں سے ایک حضرت عیسی (ع) کے سولی پر چڑھنے کی موہوم داستان جس سے مغرب نے اپنی مصوری، اشعار، کہانیوں، موسیقی اور ہنر کی مختلف اقسام میں بے پناہ فائدہ اٹھایا ہے،اگراسکا واقعہ کربلا کے متعلق وجود میں آنے والی تخلیقات سے موازنہ کیا جائے تو اس عظیم واقعہ کے متعلق ہماری غفلت و بے توجہی بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔
عاشورا مسلمانوںکے لئے مایۂ سربلندی اور حق و باطل کے درمیان معیار و میزان ہے جس کے پیغام اور خوبصورت نکات سے غفلت کو اتفاقی کہہ کر گذرا نہیں جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ ان سربستہ رازوں اور پیغاموں سے بھرا ہوا ہے جودنیا کی سب سے نایاب، مشہور اور عظیم کہانیوں اور ڈراموں کے لئے سبب تخلیق بن سکتا ہے۔ حسین بن علی (علیہما السلام)کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ممتاز کردار اور نمایاں شخصیت سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ تمام فضائل و کمالات جو دنیا کی تمام نامور شخصیات میں پائے جاتے ہیں سید الشہداء کی تنہا ذات کے بحر بے کراں میں موجود ہیں۔ ان سب کےساتھ آپ شہادت کے عظیم مرتبہ کے حامل بھی ہیں۔
ایران کا انقلابی ادب، شاہنامہ اور رستم ، سہراب اور سیاوش جیسے دلیروں کی شجاعانہ داستانوں کو پیش کرکے واقعہ عاشورا کی عکاسی کرنے میں اپنی تخلیقی اور ادبی صلاحیت کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ اس وجہ سے یہ سوال ہمیشہ ذہن کو تکلیف دیتا ہے کہ عاشورا کے بارے میں کوئی ایسی ادبی تخلیق منظر عام پر کیوں نہیں آئی جس میں مذکورہ داستانوں کی عظمت و چاشنی کا معمولی سا حصہ بھی موجود ہو؟
کیا وہ وقت نہیں آگیا ہے کہ ہم بیٹھ کر واقعۂ کربلا کے بارے میں کسی بڑے ادبی کارنامے کی کمی بلکہ فقدان کے متعلق عالمانہ انداز میں نقد و تبصرہ کریں اور کسی راہ حل کے بارے میں غور و فکر کریں؟
سید الشہداء سے تعلق ہمیشہ شیعوں کے درد و غم کا مداوا بنا ہے اور ظلم و جہل کی تاریکیوں میں مشعل نور بن کر ضوفشانی کرتا رہا ہے۔
سید الشہداء کی تحریک کے حقیقی مقصد یعنی ظلم کے خلاف قیام اور احیائے دین حق، پر توجہ وہ اہم نکتہ ہے جس کی جانب ہمارے مرثیوں میں بہت کم توجہ دی گئی ہے اور عزاداری کا مقصد مخاطب کی بصیرت اور اسکی ایمانی حرارت میں اضافہ کئے بغیر صرف اسکے آنسو نکلوانا رہ گیا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ذکرکربلا میں دینی معرفت
ہردور میں سامراج اور ظالم حکام، لوگوں کی ثقافت، زندگی اور انکے احساسات سے واقعہ کربلا اور عزاداری سید الشہداء کو نہ مٹا سکے تو تحریف کا سہارا لیا جاتا رہا۔ اور من گڑھت چیزوں کے سہارے اور عزاداری کو عاشورا کے حقیقی پیغام سے عاری بنا کر اسے غیر موثر بنانے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔ دینی اعمال کی معرفت اور انسان ساز پہلوؤں پر توجہ دئیے بغیر صرف ظاہریاعمال پر توجہ دینا وہ چال تھی جسے ظالم حکومتوں نے اپنایا اور افسوس کہ انہیں اپنے مقصد میں بہت سی کامیابیاں بھی میسر ہوئیں۔
اس طرح یہ تحریک صرف اسیراستے پر چل پڑی اور ایمان و جذبہ، کمزوری اور ناتوانی میں تبدیل ہو گیا۔ اشعار اور مرثیوں میں انقلابی پہلو باقی نہیں رہا بلکہ انکی جگہ انتہائی سطحی اور معمولی قسم کےا شعار نے لے لی۔ اسی وجہ سے لوگ عام طور پر عزاداری سیدالشہداء میں شرکت کے بعد بغیر دینی معرفتو ایمان سے آراستہ ہوئے نکلتے ہیں۔
واضح سی بات ہے کہ اس صورتحال کی جلد از جلد اصلاح ہونیضروری ہے۔ وہ مکتب فکر جو عقل و فکر، خوبصورتی اور وقار کا دین ہے اسکی شان کے خلاف انجام پانے والے سارے کام ختم ہونے چاہئیں۔
بے معنی اشعار، نامناسب نعرے اور باتیں وہ افسوسناک چیزیں ہیں جو ہمارے ذاکروں اور نوحہ خوانوں کے ذریعہ ایک بڑے پیمانے پر قوم کے حوالے کی جارہی ہیں۔ خاص طور پر موجودہ نوحوں میں جس طرح مغربی طرز کی میوزک اور انداز استعمال کیا جارہا ہے وہ دشمنوں کی عداوتوں کا نشانہ بنے ہوئے دینی مقدسات کو پامال کررہا ہے۔ آج کے اس دور میں ہماری نئی نسل کے پاس امام حسین (علیہ السلام)، انقلاب کربلا و عاشورا کے علاوہ کوئی اور پناہ گاہ نہیں ہےاور ہم بھی اس طرح کی پست حرکتیں انجام دے کر اس سے وہ جذبہ چھین لیتے ہیں۔
ذاکرین و نوحہ خوان اور معرفت اہل بیت
ابھی ہمارے نوحہ خوان، قصیدہ خوان اورذاکرین حضرات نے صحیح طرح سے اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات اور شیعیت کے اصول و عقائد کی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ انکے نوحوں اور قصیدوں کی دھنوں میں فلاں گلوکار کی دھن اور اسکا پڑھنے کا انداز بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں۔ اور وہ عزاداری سید الشہداء کے نام پر عزاداروں کو ایک ایسی فضا اور ماحول میں لے جاتے ہیں جو سید الشہداء اور ہر صاحب شعور انسان کے لئے باعث نفرت ہے۔ ہمیں عزاداری میں ایسی حرکتیں اور اعمال دیکھنے کو مل جاتے ہیں جنہوں نے اس عظیم عبادت کو ایک تفریحی جشن یا عجیب و غریب قسم کے کام کی حیثیت دے دی ہے۔ ہماری عزاداری میں نہ صرف عاشورا کے حقیقی پیغامات سے غفلت برتی جاتی ہے بلکہ ان میں وہ بہت سی باتیں کہی اور پڑھی جاتی ہیں جو دشمنوں کی خوشی کا سبب بنتی ہیں۔
شب بیداری یا انجمن بازی !
علم اور تعزیوں میں مقابلہ، عزاداری کے جلوسوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے بھاگ دوڑ، تبرک حاصل کرنے میں ہونے والی نازیبا حرکتیں اور ایک دوسرے کے تبرک سے موازنہ کرنا وہ افسوسناک کام ہیں جنہوں نے عزاداری کو ظاہری چمک دمک اور رونق دینے کے باوجود کھوکھلا بنا دیا ہےاور آج اس دور میں جبکہ ہماری جوان نسل کو کربلا اور اسکے پیغاموں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ان کاموں سے ہم نے اسے ان پیغاموں سے محروم کر دیا ہے۔
صاحبان منبر کی ذمہ داریاں
عوام نے اپنا دین "منبر"سے ہی حاصل کیا ہے اور دینی تعلیمات نشر کرنے میں کوئی بھی ذریعہ تبلیغ، اس سے زیادہ موثر نہیں ہے۔ "قصیدہ خوانی" بھی شیعہ معاشرے کا وہ رکن ہے جو اہلبیت (علیہم السلام) کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے میں موثر رہی ہے۔
گذشتہ دور میں قصیدہ خوانی اور سوز و سلام پڑھنے کا مقصد لوگوں کے احساسات ابھار کراور انکے دلوں میں محبت اہلبیت (علیہم السلام) کا جذبہ بیدار کرکے انکے دلوں کو ذاکر و خطیب کے ذریعہ اہلبیت (علیہم السلام) کی تعلیمات حاصل کرنے کے لئے آمادہ کرنا تھا۔ لیکن ادھر کچھ سالوں سے اس رویہ میں بھی تبدیلی آگئی ہے اور اب اصل قصیدہ خوانی اور نوحہ خوانی ہے جس کا سارا مجمع منتظر رہتا ہے اور اسی کو اہمیت دیتا ہے۔ کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ چالیس منٹ کی مجلس کے بعد گھنٹوں تک نوحہ خوانی جاری رہتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ صرف فلسفیانہ گفتگو کے ذریعہ پیغام نہیں پہنچایا جاسکتا ہے بلکہ احساسات و جذبات کو وسیلہ بنانا ضروری ہے۔ شہید مطہری فرماتے ہیں :"اگر کسی مکتب فکر میں احساسات کی چاشنی نہ ہو اور اس میں صرف فلسفہ اور فکر ہو تو وہ دلوں میں نہیں اتر سکتا ہے یہ احساسات اس مکتب فکر کو حرارت عطا کرتے ہیں، اس مکتب فکر کو منطقی بناتے ہیں۔ یقیناً مکتب امام حسین (علیہ السلام) میں منطق و فلسفہ ہے ․․․․ لیکن اگر ہمیشہ ہم اس مکتب فکر کو صرف فکری مکتب فکر کے عنوان سے پیش کریں گے تو اس کی حرارت کم پڑ جائیگی۔ یہ ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی بہت بڑی تدبیر اور حکمت تھی کہ کبھی اس چاشنی کو ختم نہ ہونے دیا جائے"۔ (استاد شہید مرتضی مطہری، سیری در سیرۂ نبوی، ص ۵۸)
منبروں کا وجود اسی لئے ہے تاکہ دلوں میں دین خدا کو زندہ کریں۔ ہر عہد اورہر دور میں بہت سے ایسے خدا والے رہے ہیں جو اسلامی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاتے رہے ہیں تاکہ لوگ دینی بصیرت و معرفت کا درس حاصل کریں جو عبودیت و بندگی کا مقدمہ ہے۔ دین کا آخری مقصد عبودیت و بندگی ہے۔ اور معرفت، احساسات کا سہارا لے کر عبودیت تک کا سفر طے کرتی ہے۔ قصیدہ خوانوں اور نوحہ خوانوں کی ذمہ داری احساسات کی یہی چاشنی تعلیمات اہلبیت کے پیاسے شیعوں کے دلوں میں ڈالنا ہے۔
جب کسی مکتب فکر کی ساری توجہ اور تعلیمات کا مرکز "بندگی" ہو تو ظاہر ہے کہ اس مکتب کی نمونہ عمل شخصیات بندگی کا بہترین مظہر ہوں گی "جناب فاطمہ زہرا(س) کی قدر و منزلت بندگی خدا کی وجہ سے ہے ․․․ نہ صرف جناب فاطمہ زہرا (س) بلکہ انکے والد گرامی جنکی شخصیت میں سارے معصومین کے فضائل جمع ہیں اور امیرالمومنین اور جناب فاطمہ زہرا علیہما السلام انکے سمندر وجود کے قطرے ہیں؛ کا خدا کے نزدیک سارا مقام و مرتبہ عبادت و بندگی کی وجہ سے ہے۔ (رہبر انقلاب، شعراء اور نوحہ خوانوں سے ملاقات کے دوران)
مبالغہ یا عدم معرفت!
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے شعراء ،حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) یا دوسرے معصومین کے فضائل بیان کرتے وقت "توحید" کی حدوں سے پار چلے جاتے ہیں اور "شرک" کی کھائی میں گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ ہماری زیارتوں میں معصومین (علیہم السلام )کے انتہائی حیرت انگیز فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں منجملہ زیارت رجبیہ کا یہ جملہ "لا فرق بینک و بینھم الا انھم عبادک" خدا اور معصومین (علیہم السلام)کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ خدا کے بندے ہیں۔ اور زیارت رجبیہ وہ زیارت ہے جس کے بارے میں امام خمینیسے انکے ایک شاگرد نے نقل کیا ہے کہ آپ زیارت رجبیہ پڑھنے کی بہت تاکید کرتے تھے اور فرماتے تھے :"صرف اسی بندہ ہونے کی وجہ سے ائمہ (علیہم السلام) اور خدا کے درمیان فرق ہے ورنہ انکے اندر ساری خدائی قوتیں موجود ہیں"۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری محافل و مجالس میں شعراء اور ذاکرین صرف مبالغہ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی بعض چیزوں کے ذریعہ ان عظیم شخصیات کی بے حرمتی کرتے ہیں اور انکی بارگاہ میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم انکے بارے میں اپنی فکر کے اعتبار سے سوچتے ہیں اور جو کچھ ہمیں اچھا لگتا ہے انکی طرف اسکی نسبت دے دیتے ہیں چاہے دین اور شریعت کی نگاہ میں اس بات کی کوئی حیثیت نہ ہو ۔
چونکہ ان شخصیات تک ہماری دسترسی نہیں ہے، ہم انہیں نہیں سمجھتے ہیں اور ان کی شخصیت کا ادراک نہیں کر پاتے ہیں اس وجہ سے کبھی کبھی انکے بارے میں ایسے جملے استعمال کئے جاتے ہیں جو بہت مناسب نہیں ہیں․․․ چونکہ وہ ان کا احترام اور تعظیم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی حقیقت ہمارے چھوٹے سے ذہن میں نہیں سما پاتی ہے․․․ اسکے علاوہ کچھ شعراء ایسی بے معنی مدح و ثنا کرتے ہیں جو کبھی کبھی بہت مضر ہے مثلاً ہم کبھی کبھی معصومین (علیہم السلام) یا اس گھرانے کی دوسری شخصیتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرتے ہیں، انکی زلف، رخسار اور چشم و ابرو کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ کیا دنیا میں خوبصورت چہرے کے لوگ کم پائے جاتے ہیں؟ کیا ہم نے انکو دیکھا ہے جو انکے ظاہری حسن کی اس طرح تعریف کرتے ہیں؟ کیا ان کی عظمت انکی خوبصورتی، انکے قد و قامت اور مضبوط بازوؤں اور سینے کی وجہ سے ہے؟ یا پھر انکے معنوی کمالات اور ایثار و قربانی کی وجہ سے ہے؟یہ چیزیں تو دنیا میں بہت سے لوگوں کے پاس ہیں۔ یہ دینی اعتبار سے کسی شخص کی فضیلت کا معیار نہیں ہیں۔ یہ ہماری دینی معرفت پر آنچ لانے والے کام ہیں۔ یہ کام نہ صرف یہ کہ صحیح نہیں ہے بلکہ کچھ جگہوں پر تو نقصاندہ بھی ہے۔
من گھڑت روایات
ہمارے قصیدہ خواں اور نوحہ خواں حضرات چونکہ صاحب فن ہیں اس لئے ہر دن کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی سوچتے رہتے ہیں اس وجہ سے بعض افراد غیرمناسب رفتار و گفتار اپنا لیتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے ایک مومن کے شایان شان نہیں ہے۔
دوستی، دشمنی اور اساطیری کردار تخلیق کرنے کو تحریف کی وجہ جانا گیا ہے ان میں سے دو چیزیں یعنی دوستی اور اساطیری کردار تخلیق کرنے کی خواہش ہمارے شعراء میں پائی جاتی ہے۔
ہم چونکہ اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کرتے ہیں اس لئے کبھی کبھی انکے لئے ایسی باتیں ذکر کردیتے ہیں جو کسی بھی طرح ان کی شخصیت کے مطابق اور انکے شایان شان نہیں ہیں۔ جیسا کہ شہید مطہری فرماتے ہیں کہ ہم سید الشہداء کی شہادت کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا وہ بغیر ہدف و مقصد کے شہید کر دئیے گئے ہیں اور انکا خون بیکار چلا گیا جبکہ سید الشداءا کی محبت میں کہی جانے والی ان باتوں کے بالکل برعکس امام حسین (علیہ السلام) کے ہر قطرۂ خون کی بے انتہا قدر و قیمت ہے اور عاشورا میں انکے انقلاب نے ایوان ظلم و جور کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا"۔ (حماسہ حسینی، ج ۳، ص ۸۴)
اسی طرح اساطیری اور افسانوی کردار بنا نے کی خواہش میں ان مقدس شخصیات کی جانب ایسی قدرت و طاقت کی نسبت دیتے ہیں جسکو ثابت کرنے سے نہ تو انکی فضیلت میں کوئی اضافہ ہوگا اور نہ ہی ہمارے عقائد کے اعتبار سے وہ صفات انکے لئے ضروری ہیں چونکہ وہ ہماری ہدایت اور اخلاقی تربیت میں کسی بھی طرح کا کردار ادا نہیں کرتی ہیں۔
عزاداری اور انجمنوں کی طرف جوانوں کےبڑھتے ہوئے رجحان کی قدر کرنی چاہئے۔ خدا کی اس عظیم نعمت کا شکر، ان جوانوں کو اہلبیت (علیہم السلام) کی تعلیمات سے واقف کرنا اور انکے سامنے بغیر کسی ملاوٹ کا خالص دین پیش کرنا ہے۔
خالص دین کا مرکز
خالص دین کو صرف مذہب شیعہ کے امانتدار علماء سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ فقہاء اپنے نفسوں پر غالب، ہوا و ہوس سے دور رہنے والے اور اپنے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں جنکے ذہن میں شریعت کی پیروی کے علاوہ کوئی دوسری فکر نہیں ہے۔ ان پاکیزہ کردار شخصیتوں کا ہم سے تقاضہ یہی ہے کہ ہم گناہوں سے بچتےہوئے محافل و مجالس قائم کریں۔
آج ہماری محافل و مجالس میں بہت سے جوان شرکت کرتے ہیں اور اپنا دین و ایمان اور عقائد ان محافل و مجالس کے شعراء اور خطباء سے حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں ان افراد کو احتیاط سے کام لینا چاہئے خاص طور پر ان موضوعات اور معاملات میں جن کے بارے انکو زیادہ معلومات نہیں ہیں تاکہ ان کی باتوں کے ذریعہ یہ پاک دل جوان گمراہ نہ ہونے پائیں۔
آج جبکہ سماجی تبدیلیوں میں ان مجالس اور انجمنوں کی اہمیت و تاثیر پہلے سے زیادہ سب پر واضح ہو چکی ہے، یقینا دشمن شیعہ، سماج کے اس دیرینہ مرکز کو کمزور کرنے میں زیادہ سےز یادہ کوششں کرے گا لیکن ہمارے صاحبان منبر کی ذہانت و فراست سے ہدایت و تربیت کے یہ مراکز ہمیشہ اپنی پوری آب وتاب اور تاثیر کے ساتھ ہمارے شیعہ معاشرے میں باقی رہیں گے۔
گمراہی اور انحراف کی اصل وجہ
قرآن کریم کسی بھی قوم اور معاشرے کی گمراہی کی وجہ خود انہی کی بے پرواہی، ذکر خدا سے فراموشی اور خواہشات نفس کی پیروی کو بیان کرتا ہے "فخلف من بعد ھم خلف اضاعوا الصلوۃ و اتبعوا الشھوات فسوف یلقون غیا‘‘، ’’اور ان کے بعد ایک ایسی نسل آئی کہ جس نے نماز کو ضایع کیا اور خواہشات وشہوات کی پیروی کی تو یہ لوگ بہت جلد اپنی گمراہی کا نتیجہ دیکھیں گے‘‘
اس گمراہی اور عمومی سطح کے انحراف کے دو عامل اور عنصر ہیں ۔ ایک ذکر خدا سے دوری کہ جس کا مظہر نماز ہے، آج ہماری قوم عزاداری اور نماز کے درمیان ٹکراؤ پر خوشی مناتی ہے اور اہل منبر خطباء و ذاکرین قوم کی اس خوشی سے خوب سوء استفادہ کرتے ہیں گویا قوم خوش ہے کہ ہم نے خطیب کو بے وقوف بنا لیا اور خطیب خوش ہے کہ میں نے قوم کو بے وقوف بنایا جب کہ حقیقت میں شیطان خوش ہوتا ہے کہ میں نے دونوں کو بے وقوف بنایا ہے ۔ یعنی خدا اور معنویت کو فراموش کرنا، معنویت اور روحانیت کو زندگی سے نکال دینا، خدا کی طرف توجہ، ذکر، دعا و توسل، خدا کی بارگاہ میں طلب، تضرع و زاری، توکل اور خدای حساب و کتاب کو زندگی سے باہر نکال پھینکنا یہ سب ہمار ے معاشرے کی شان بن چکا ہے ۔
دوسرا عنصر" واتبعوا الشھوات" شہوت رانی کے پیچھے جانا، ہوا و ہوس اور خواہشات کی پیروی یا با الفاظ دیگر دنیا طلبی، مال و ثروت کی جمع آوری کی فکر میں پڑنا اور لذت دنیوی سے لطف اندوز ہوکر خداو قیامت کو فراموش کردینا پھر ان سب امور کو اصل جاننا اور ہدف و مقصد کو فراموش کردینا گویا اصلی اور بنیادی درد اور اصلی ہدف کے حصول کی تڑپ کا دل سے نکل جانا، یہ ہے ہمارے معاشرے کا بنیادی اور اصلی درد و تکلیف۔گویا ہمارے معاشرے میں ہر شخص کی فکر یہ ہے کہ اپنا الو سیدھا کرے ایسا نہ ہوکہ وہ دنیا کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ جائے دوسرے اپنی جیبوں کو بھر رہے ہیں تو ہم بھی دونوں ہاتھ پھیلائے آگے بڑھیں۔ جب معاشرے کے افراد انپے انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیں تو ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کی تاویلات سے معاشرہ اجتماعی سطح پر اس قسم کی بلاؤں سے دچار ہوگا۔
نتیجہ
واقعہ کربلا کا ایک زندہ معجزہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت اور روح نہ کبھی تحریف کا شکار ہوئی اور نہ کبھی ہوگی لیکن افسوس صرف اتنا ہے کہ اس وقعہ کو بیان کرنے والے اپنے شخصی و انفرادی مفاد کی خاطر اور شہداء کربلا اور خصوصا معصومین (علیہم السلام )کے حقیقی مقام و منزلت سے عدم معرفتکی وجہ سے ہمارے ذاکرین، شعراء اور نوحہ خوانوں کے ذہن سطی فکر رکھتے ہیں اور اسی سطح پر مدح سرائی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جب کہ کر بلا ایک نظام ہے کہ جس میں تربیب، اخلاق، ایمان، حقآئق، معرفت اور ہر وہ چیز موجود ہے کہ جو انسانیت کی ہدایت کے لیے ضروری ہے ۔
اسلامی نظام، عمیق ایمان، بلند ہمت، آہنی عزم، بلند و بالا اہداف کی رہائی کیلیے بامقصد شعاروں کو بیان کرنے اور انہیں اہمیت دینے اور زندہ رکھنے سے وجود میں آتاہے ۔اور انہیں امور کے ذریعہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور وہ اسی راہ کے ذریعہ ترقی و پیش رفت کرتا ہے، ان شعاروں کو کم رنگ کرنے، انہیں کم اہمیت شمار کرنے، انقلاب واسلام کے اصول و قوانین سے بے اعتنائی برتنے اور تمام امور اور چیزوں کو مادیت کی نگاہ سے دیکھنے اورسمجھنے کے نتیجے میں معلوم ہے کہ معاشرہ ایسے مقام پر جا پہنچے گا کہ اس کی اجتماعی صورتحال نا قابل بیان ہوگی۔
ہمیں امید ہے کہ اس مختصر سے مقالے کو مثبت نگاہ سے دیکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ ہم کربلا کی روح کو درک کرسکیں اور خداوندعالم کی بارگاہ میں ملتجی ہیں کہ ہمیں کربلا والوں کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور وارث کربلا کو ہم راضی و خوشنو فرما۔
No comments:
Post a Comment