حزب اللہ کے لیڈر حسن نصر اللہ نے پاکستانی سیاستدان کو اپنی حیران کن وصیت بھجوا دی ، وصیت میں پاک فوج کے بارے میں کیا ہدایات دیں؟ پاکستانی صحافی کا تہلکہ خیز انکشاف...
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک): پاک فوج کے خلاف اس وقت کئی حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے چند دن قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنی پریس بریفنگ کے درمیان کئی انکشافات کئے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے سوشل میڈیا اور پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ پاک فوج صرف پاکستان کے دفاع کیلئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان پاک فوج کو کتنی اہمیت اور عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے روزنامہ جنگ میں آج شائع ہونے والے مظہر برلاس کے کالم میں اس کی صحیح تصویر اجاگر کی گئی ہے۔ مظہر برلاس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ پاکستان اس وقت زرعی، آبی اور معاشی مشکلات سمیت اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ پچھلے 35 ، 40 سالوں میں ملک کو اس قدر لوٹا گیا کہ آج ملکی معیشت تباہ وبرباد ہو کر رہ گئی ہے۔ اگلا منظر کس طرح خوفناک اور خطرناک ہوگا، اس کاجائزہ بعد میں لیتے ہیں، پہلے ایک ایسا واقعہ سن لیں جسے سن کر پاکستان سے پیار کرنے والوں کو سکون ملے گا۔
یہ 2004 کا واقعہ ہے، بوسنیا ہرزگوینا کے شہر سرائیوو میں یوتھ ڈویلپمنٹ فار پیس کانفرنس ہو رہی تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے نوجوان شریک تھے۔ کانفرنس میں معذوروں کی نمائندگی امریکہ کے وکٹر اور پاکستان سے شفیق الرحمٰن نے کی۔ شفیق الرحمٰن بتاتے ہیں کہ ’’میرے لئے فخر تھا کہ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب نائن الیون کے بعد دنیا افغانستان کی خبروں سے پاکستان کو منسلک کر رہی تھی۔ پاکستان کا تاثر مسخ کیا جا رہا تھا۔ چونکہ میرا پہلا عشق پاکستان ہے، اس لئے میرے لئے یہ خبریں بہت تکلیف دہ تھیں مگر پھر قدرت میرے لئے ایک ایسا لمحہ لے آئی جب میں سینہ تان کر کانفرنس میں شریک ہو گیا۔ اس کی وجہ کانفرنس میں میری مترجم ایک 30 سالہ خوبصورت لڑکی تھی۔ نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں نے اس کے حسن کو چار چاند لگا رکھے تھے۔ تعارف ہوا تو میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ میری مترجم آگےبڑھی۔ اس نے میرا ہاتھ تھاما، اسے چوما، چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ اس غیرمتوقع حرکت پر میں حیران ہوا۔ وہ میری حیرت کو دیکھ کر بولی ’’کاش ہماری نسلوں میں پاکستانی پیدا ہونا شروع ہوجائیں۔‘‘
یہ جملہ سننے کے بعد میں مزید حیرت میں ڈوب گیا۔ میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا تو وہ کہنے لگی ’’کیا آپ مجھ سے شادی کرسکتے ہیں؟‘‘ پہلی ہی ملاقات میں ایسے جملے سن کر مجھے مزید حیرت ہوئی۔ خیر میں نے اسے بتایا کہ میں شادی کر چکا ہوں مگر آپ بتایئے کہ آپ ایسا کیوں چاہتی ہیں؟ اس پر اس نے بتانا شروع کیا کہ
’’جب سربیا کے غنڈے ہم مسلمان لڑکیو ں کی عزتوں سے کھیلنا چاہتے تھے تو اس وقت ہمیں بچانے والے پاکستانی فوج کے جوان تھے۔ بین الاقوامی امن فوج میں شامل پاکستانی جوانوں نے نہ صرف ہمیں بچایا بلکہ وہ ہمیں اپنے کیمپوں میں لے گئے۔ انہوں نے ہمیں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی طرح رکھا۔ جب وہ ہمیں کھانا دیتے تھے تو خود نہیں کھاتے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر بتاتے تھے کہ ہمارا روزہ ہے۔ کچھ ہفتوں بعد ہمیں پتا چلا کہ وہ ہمیں اپنے راشن سے کھانا دے کر خود بھوکے رہتے ہیں۔
وہ پاکستانی فوجی جوان ہمارے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے، ہمارے بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے، ہماری حفاظت کرتے ہوئے کچھ پاکستانی جوان شہید بھی ہوگئے تھے۔ تم پاکستانی عظیم لوگ ہو۔‘‘
اس کے اس جملے نے میرا سر فخر سے بلند کردیا۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اپنی بہن سمجھتے ہوئے اسے دعا دی اور پھر اس سے کہا کہ
’’پاکستان کی فوج ہم پاکستانیوں کےلئے فخر کا باعث ہے۔ دنیا میں اگر کسی نے غریب اور متوسط طبقے کے افراد پر مشتمل شاندار ادارہ دیکھنا ہو تو وہ پاکستانی فوج کو دیکھ لے۔‘‘
"یہ واقعہ 2004 میں ہو چکا ہے مگر اب جب میں سیاستدانوں کی طرف سے فوج پر تنقید کے مناظر دیکھتا ہوں تو پھر سوچتا ہوں کہ فوج کو برا کہنے والے سیاستدان کبھی اپنے بچوں کو سرحدوں پر بھیجیں تو انہیں پتا چلے کہ دھرتی سے عشق نبھانا کیا ہوتا ہے…..‘‘
میں نے پچھلے کالم میں علامہ راجہ ناصر عباس کی کچھ گفتگو شامل کی تھی، آج کچھ مزید باتیں شامل کر دیتا ہوں۔ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ، پاکستانی سیاستدان علامہ راجہ ناصر عباس کے کلاس فیلو ہیں۔ حسن نصراللہ پچھلے چار سال سے اپنے پاکستانی دوست راجہ ناصر کو نصیحت کر رہے تھے مگر اس بار انہوں نے وصیت کی کہ کبھی بھی اپنی فوج کو نہ چھوڑنا۔ ہمیشہ اپنی فوج کے ساتھ رہنا کیونکہ ہمیں بہت سی اطلاعات ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل مسلمان ملکوں کی افواج کو توڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسی منصوبے کے تحت لیبیا اور عراق کی فوج کو توڑا، یمن کی فوج توڑی، اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کی فوج نہیں بننے دی۔ دراصل یہ مسلمان ملکوں کی افواج کو توڑ کر خطے کی ازسرنو ترتیب چاہتے ہیں۔ اب ان کی ترتیب میں اور توسیع شامل ہو گئی ہے اور اب ان کا مشن پاکستانی فوج کو توڑنا ہے۔ اسے کمزور کرنا ہے کیونکہ جغرافیائی طور پر اہم ہونے کے علاوہ پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ آبادی بھی بھرپور ہے۔ طاقتور ملک ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سازش کامیاب ہو گئی تو پھر ایران اور افغانستان بھی ٹوٹ جائیں گے. اسی لئے میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ ہر حال میں اپنی فوج کا ساتھ دینا۔ آپ کا ملک اور عوام اسی صورت میں بچیں گے جب آپ کے پاس طاقتور فوج ہوگی۔ علامہ راجہ ناصر عباس کہتے ہیں کہ ’’میں اکثر سوچتا تھا کہ میرا دوست کیوں یہ منظر مجھے بتاتا ہے۔ اب جب حالات میرے سامنے آئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا کیونکہ میرے لئے وہ دن حیران کن تھا جب تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نے اپنی فوج کے خلاف بولنا شروع کیا۔ تب مجھے بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کام کرنے والوں کی سمجھ آئی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ایسا شخص جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا ہو، وہ بھی ایسا کرسکتا ہے؟ اس کے خاندان نے تو پاکستان کے لئے کوئی قربانی بھی نہیں دی۔ ان کے پورے خاندان میں کوئی شہید نہیں ہے بلکہ انہوں نے تو پاکستان کو صرف لوٹا ہے. پاکستان نے انہیں ارب پتی بنایا اور یہ پاکستان پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ جب فاٹا میں امن ہو چکا تھا تو پھر یہ منظور پشتین کہاں سے آ گیا؟ کہاں سے آگئے اچکزئی اور ’’اچکزئی نظریے‘‘ والے؟ کیوں منظور پشتین کو لاہور بلوا کر جلسے کرواتے ہیں؟ کسی بات پر اختلاف کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ اپنی فوج کے خلاف باتیں کریں۔ منظور پشتین نے کیوں اسرائیلی فوج کے حق میں نعرے بازی کی؟ ہم لوگوں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں۔ ہم نے 20 ہزار جنازے اٹھائے ہیں، حق کے لئے دھرنے دیئے ہیں مگر کبھی اپنے وطن کے خلاف بات نہیں کی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری پہلی اور مضبوط دیوار صرف اور صرف پاک فوج ہے۔ ہمارے معاشرے کے اندر تو اختلافات کے نام پر بہت تقسیم ہے۔ ہمیں اندرونی اختلافات ختم کر کے اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیئے۔‘‘
خواتین و حضرات! اگلا منظر زیادہ خوفناک ہے۔ اس میں کئی خطرناک کھیل شروع کر دیئے جائیں گے۔ یہ کھیل عید کے بعد شروع ہونے والا ہے۔ عید کے بعد منظور پشتین جیسے کئی گھٹیا کردار سامنے آئیں گے. یہ چھوٹی چھوٹی تحریکوں کے نام پر سامنے آئیں گے۔ ان تحریکوں کو ’’اچکزئی نظریے‘‘ کے پاسبان سپورٹ کریں گے۔ اس سلسلے میں گلگت میں بھی کام شروع ہو چکا ہے۔ کوئٹہ کے اندر لوگوں کو بہلانے پھسلانے والے بھی سرگرم ہیں۔ لندن میں بیٹھا ہوا ایک کالا کردار کراچی اور حیدرآباد کے کئی کرداروں سے رابطے میں ہے۔ عید کے بعد جب شریف خاندان کے لوگوں کو سزا ہو گی تو ’’اچکزئی نظریہ‘‘ پنجاب میں نظر آئے گا۔ سڑکوں پر ہنگامے ہوں گے۔ اس دوران لوڈشیڈنگ بھی ہو گی، لوگوں کو کئی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک سیاسی جماعت پیسے کے زور پر پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائے گی۔ ان کے سارے سوشل میڈیا کنونشن سرگرم ہو جائیں گے۔ اس دوران بیرونی میڈیا سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ چند بیرونی طاقتیں پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے چکر میں ہیں۔ اسی لئے تو پاکستان کو پانی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ افراتفری، ہنگاموں اور احتجاجوں کا عروج جولائی میں ہونے والے الیکشن کو کھا جائے گا۔ جن لوگوں کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا وہ کچھ دن انتظار کر لیں کیونکہ شہبازشریف اور نوازشریف ایک نظریے پر متفق ہو چکے ہیں۔ شریف فیملی کے جس آخری فرد کا جہاں کہیں بھی خاص رابطہ تھا، اب وہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ بس ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل منظرنامے کی اگلی بدصورتی بیان کر رہا ہے اور اگلی بدصورتی یہی ہو گی کہ 25 جولائی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔ الیکشن جب بھی ہوئے اس سے پہلے صفائی ستھرائی ضرور ہو گی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان سے پیار کرنے والے ایک ہو جائیں کیونکہ پاکستان کے دشمن ہمارے وطن کے خلاف ایک ہو چکے ہیں اور انہیں ملک کے اندر سے ’’اچکزئی نظریے‘‘ کے حامل کئی افراد میسر ہیں۔ وہ تب تک حاوی نہیں ہوسکتے جب تک آپ کی فوج ہے،
فوج کو وہ شکست نہیں دے سکے، اب یہ کام وہ آپ سے لینا چاہتے ہیں۔
بس یہی ففتھ جنریشن وار ہے۔
اگر آپ یہ خود کشی نہیں کرنا چاہتے تو اپنی فوج کو نشانہ بنانا بند کیجئیے۔
اور اگر انکا مقابلہ کرنے کا دل ہے تو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو مورچہ سمجھ لیجئیے۔۔۔۔۔۔۔
بنیادی طور پر آپ کے تین نمایاں دشمن ہیں۔
لبرلز: ایمان کے دشمن
خارجی: جان کے دشمن
جمہوریے: مال کے دشمن
تینوں کے پاس خوبصورت نعرے
لبرلز انسانیت کا نعرہ،
خارجی اسلام کا نعرہ،
اور جمہوریے حقوق کا نعرہ،
لیکن حقیقت میں ایک کافر کرتا ہے، دوسرا مارتا ہے اور تیسرا لوٹتا ہے۔
تینوں کا آپس میں ایک غیراعلانیہ اتحاد ہے۔
آپ غور کیجئیے ۔۔۔۔۔۔۔
اور ان تینوں کا مشترکہ دشمن کون؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاک فوج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!
خارجی پاک فوج کو اسلام دشمن کہہ کر،
لبرلز پاک فوج کو دہشت گرد کہہ کر،
اور سیاست دان پاک فوج کو جمہوریت دشمن کہہ کر اس پر حملہ آور ہیں،
ان کو امریکہ، برطانیہ اور انڈیا کی بھرپور مدد و حمایت حاصل ہے۔
ان سے لڑنا کیسے ہے؟
1 ۔۔۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف پوسٹ کیا گیا مواد ہرگز شئیر مت کیجئیے۔
2 ۔۔۔۔ ایسے مواد پر لائک یا کمنٹ مت کیجئیے۔ مخالفت میں بھی کمنٹ کرینگے تو وہ پوسٹ کی ریچ بڑھا دیگا۔
3۔۔۔۔۔۔ ہوسکے تو فیس بک کو رپورٹ کیجئیے۔
4 ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس اکاؤنٹس سے ایسا مواد شئیر کیا گیا ہے اسکو انفرینڈ یا انبلاک کیجئیے۔
5 ۔۔۔۔۔ ایسے اکاؤنٹس اکثر فیک ہوتے ہیں اس لئے فیس بک کو رپورٹ کیجئیے۔
6 ۔۔۔۔ پاک فوج کو سپورٹ کرنے والا مواد گروپس میں اور وٹس ایپ وغیرہ پر زیادہ سے زیادہ شیر کیجئیے۔
7 ۔۔ پاک فوج کی سپورٹ میں بنائے گئے پیجز اور اکاؤنٹس کو لائیک یا فالو کیجئیے۔
8 ۔۔۔۔ خود بھی لکھنے کی کوشش کیجئیے۔
9 ۔۔۔۔۔ یہ فوج آپ کے لئے جانیں دے رہی ہے اس پر بھروسہ رکھئیے۔ غیر واضح معاملات میں دشمن آپ کو فوج سے بدگمان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں مت آئیے۔
" فوج اچھی ہے اور جرنیل برے ہیں" کہہ کر آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔
ان کے سامنے پاک فوج کی قربانی کی خبر پیش کریں تو بظاہر غم زدہ ہونے کا ڈراما کرتے ہوئے آپ کو بتائنگے کہ " یہ فلاں جرنیل کی غلطی ہے" اور یوں پاک فوج پر ہی تنقید کرینگے۔
اگر دشمن حملہ کرے تو بجائے اس کو ملامت کرنے کے یہ آپ کو پاک فوج کو ہی ملامت کرتے نظر آئے گے کہ " کہاں گئی آپ کی جانباز فوج" ۔۔۔۔
ان کی ٹائم لائن پر سوائے پاک فوج پر تنقید کے آپ کو کچھ نہیں ملے گا لیکن واویلا مچائے گے کہ " وہ کون سی مقدس گائے ہے جس پر تنقید کی اجازت نہیں " ۔۔۔۔۔ :) ۔۔ آپ کو علم ہونا چاہئیے کہ پاکستان میں فوج پر جتنی بے دھڑک تنقید ہوتی ہے دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔
ان کی ان چالوں کو سمجھئیے۔
گستاخانہ پیجز چلانے والے، آپ کو بموں سے اڑانے والے اور آپ کو لوٹنے والے ہرگز ہرگز ہرگز آپ کے خیر خواہ نہیں ہیں۔
اللہ کی قسم پاک فوج نہ رہی تو افغانستان اور انڈیا آپ کو کھا جائے گے۔ ان کو تو چھوڑیں آپ ان خوارج سے ہی نہیں نمٹ سکیں گے جن کو صرف آپ کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
اسلام کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم ترین قلعہ ہے اور پاکستان تب تک فتح نہیں ہو سکتا جب تک پاک فوج موجود ہے۔ اپنی ہی فوج کو شکست دینے میں دشمن کا ہاتھ مت بٹائیے۔
نوٹ ۔۔ اپنی جنگ کا آغاز اس مضمون کو شئیر کر کے
کیجئیے۔
No comments:
Post a Comment