تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

Saturday, May 26, 2018

صلہ رحمی

صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدست اور کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُّوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَoالبقرة، 2 : 27
(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیںo
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غیرب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں، جیسا کہ آجکل رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنےدوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا والدین اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
صلہ رحمی ہر دور میں کی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے، ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے، غمی خوشی میں شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔ قطع رحمی کی سزا تو دنیا میں بھی مل جاتی ہے، جب بھائی مشکل وقت میں اپنے بھائی کا ساتھ نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو نہ سمجھا جائے۔ جب خون سفید ہو جائے، تعلقات ختم کریں، جب ضرورت ہو تو اس کی ضرورت کو پورا نہ کیا جائے، حتی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مرنا جینا ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سزا ہی ہے۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق پوچھا جائے گا.

 صلہ رحمی کے  فائدے ہمیں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے بتانے سے معلوم ہوتے ہیں ، میں اس مقام پر صلہ رحمی کے انہیں فائدوں کا ذکر کروں گا جو مشکوٰة نبوت سے ماخوذ ہیں، جو فائدے خود ہم کو محسوس ہوتے ہیں، ان کے بیان کرنے کی حاجت نہیں، جو لوگ عقل مند ہیں، وہ مجھ سے زیادہ ان فائدوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ہمارے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:*… صلہ رحمی سے محبت بڑھتی ہے۔*…مال بڑھتا ہے ۔*…عمر بڑھتی ہے۔*…رزق میں کشائش ہوتی ہے۔*… آدمی بری موت نہیں مرتا۔*…اس کی مصیبتیں اور آفتیں ٹلتی رہتی ہیں۔*…ملک کی آبادی اور سرسبزی بڑھتی ہے۔*…گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔*…نیکیاں قبول کی جاتی ہیں۔*…جنت میں جانے کا استحقاق حاصل ہوتا ے۔*…صلہ رحمی کرنے والے سے خدا اپنا رشتہ جوڑتا ہے۔*… جس قوم میں صلہ رحمی کرنے والے ہوتے ہیں، اس قوم پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

احادیث صحیح سے اس کا ثبوت :رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:” تم اپنے نسبوں کو سیکھو،تاکہ اپنے رشتہ داروں کو پہچان کر ان سے صلہ رحمی کر سکو۔ ( فرمایا کہ) صلہ رحمی کرنے سے محبت بڑھتی ہے ، مال بڑھتا ہے اورموت کا وقت پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔“ (ترمذی) جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں کشائش ہو اور اس کی عمر بڑھ جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے۔“ (بخاری ومسلم) جو چاہتا ہو کہ اس کی عمر بڑھے اوراس کے رزق میں کشائش ہو اور وہ بری موت نہ مرے تو اس کو لازم ہے کہ وہ خدا سے ڈرتا رہے اوراپنے رشتے ناطے والوں سے سلوک کرتا رہے۔“ (ترغیب وترہیب) جو شخص صدقہ دیتا رہتا ہے اوراپنے رشتے ناطے والوں سے سلوک کرتا رہتا ہے ، اس کی عمر کو خدا دراز کرتا ہے اور اس کو بری طرح مرنے سے بچاتا ہے اوراس کی مصیبتوں اور آفتوں کو دور کرتا رہتا ہے ۔“ (ترغیب وترہیب(   رحم خدا کی رحمت کی ایک شاخ ہے ، اُس سے خدا نے فرما دیا ہے کہ جو تجھ سے رشتہ جوڑے گا اس سے میں بھی رشتہ ملاؤں گا اور جو تیرے رشتہ کو توڑ دے گا میں بھی توڑ دوں گا۔“ (بخاری)فرمایا کہ:” الله کی رحمت اس قوم پر نازل نہیں ہوتی جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتہ ناطوں کو توڑتا ہو ۔“ ( شعب الایمان بیہقی)  بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ اس کا مستوجب نہیں کہ اس کی سزا دنیا ہی میں فوراً دی جائے اور آخرت میں بھی اس پر عذاب ہو ۔“ (ترمذی وابوداؤد) فرمایا کہ:” جنت میں وہ شخص گھسنے نہ پائے گا جو اپنے رشتے ناطوں کو توڑ تا ہو۔“ (بخاری ومسلم)  ہمارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کہیں تشریف لیے جارہے تھے، راستہ میں ایک اعرابی نے آکر آپ صلی الله علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لی اورکہا کہ یا رسول الله ! مجھ کو ایسی بات بتائیے، جس سے جنت ملے اور دوزخ سے نجات ہو ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ایک خدا کی عبادت کر اور اس کے ساتھ شریک مت کر ، نماز پڑھ ، زکوٰة دے اوراپنے رشتے ناطے والوں سے اچھا سلوک کرتا رہ، جب وہ چلا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اگر میرے حکم کی تعمیل کر ے گا تو اس کو جنت ملے گی۔“ ( بخاری ومسلم)  حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ” الله تعالیٰ کسی قوم سے ملک کو آباد فرماتا ہے اوراس کو دولت مند کرتا ہے اور کبھی دشمنی کی نظر سے ان کو نہیں دیکھتا ۔“ صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله! اس قوم پر اتنی مہربانی کیوں ہوتی ہے ؟ فرمایا کہ“ رشتے ناطے والوں کے ساتھ سلوک کرنے سے ان کو یہ مرتبہ ملتا ہے۔“ ( ترغیب وترہیب) فرمایا کہ:” جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے اس کو دنیا وآخرت کی خوبیاں ملتی ہیں اوراپنے رشتے ناطے والوں سے سلوک کرنے اورپڑوسیوں سے میل جول رکھنے اور عام طور پر لوگوں سے خوش خلقی برتنے سے ملک سرسبز اور آباد ہوتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کی عمریں بڑھتی ہیں ۔“ (ترغیب وترہیب) ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ یا رسول الله! مجھ سے ایک بڑا گناہ ہو گیا ہے، میری توبہ کیوں کر قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیری ماں زندہ ہے ؟ اس نے کہا نہیں ، فرمایا کہ خالہ؟ اس نے کہا جی ہاں! فرمایا کہ ” تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔“ ( ترغیب وترہیب) ایک بار حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے مجمع میں یہ فرمایا کہ جو رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرتا ہو ، وہ ہمارے پاس نہ بیٹھے، یہ سن کر ایک شخص اس مجمع سے اٹھا اور اپنی خالہ کے گھر گیا، جس سے کچھ بگاڑ تھا، وہاں جاکر اس نے اپنی خالہ سے معذرت کی اور قصور معاف کرایا۔ پھر آکر دربار نبوت میں شریک ہو گیا۔ جب وہ واپس آگیا تو سرکاردو عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس قوم پر خدا کی رحمت نہیں نازل ہوتی جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتہ داروں سے بگاڑ رکھتا ہو۔“ ( ترغیب وترہیب ( فرمایا کہ:” ہر جمعہ کی رات میں تمام آدمیوں کے عمل اورعبادتیں خدا کی درگاہ میں پیش ہوتی ہیں، جو شخص اپنے رشتہ داروں سے بدسلوکی کرتا ہے اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔“ (ترغیب وترہیب(

2 comments:

Post Top Ad

Your Ad Spot