سیاسی بساط پر
سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ پرویزمشرف نے جو 46کروڑ کورونافنڈ میں دئے ہیں۔ ۔ ۔ وہ اس کے پاس کہاں سے آئے؟
حکومت وقت کی تو خیر باتیں ہی کیا۔ ۔ ۔ اس کی حقیقت تو پورا میڈیا بشمول سوشل میڈیا دکھا رہا ہے۔
مگر سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ
وہ میاں صاحبان جن کے سپورٹرز انہیں کرپشن سے پاک قرار دینے کے لئے انہیں جدی پشتی کروڑپتی ثابت کرتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ انہوں نے اب تک کتنا سرمایہ قوم پر لگایا؟
چھوٹے میاں جو دس ہزار حفاظتی کٹس اور ماسک ''اپنے ساتھ'' لائے تھے ۔ ۔ ۔ ہم نے اسی سوشل میڈیا پر دیکھا کہ ۔ ۔ ۔ وہ ایک ٹیبل کے کونے میں سمائے ہوئے تھے۔
برج الخلیفہ سے ''بنجی'' کے ذریعے چھلانگیں لگانے کا مہنگاترین شوق رکھنے والی بختاور بھی غائب ہے۔
اپنے قیمتی کتوں کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھنے والی چھوٹی سے آصفہ ۔ ۔ ۔ جسے بلاول کی قید کی صورت میں پارٹی بھی سنبھالنی ہے۔ اس نے بھی ابھی تک اپنی پاکٹ منی دینے کا اعلان نہیں کیا۔
خودساختہ سویلین کے آرمی چیف بھی نظر نہیں آرہے۔
مانا کہ وہ خود چندوں پر پلنے والے آدمی ہیں۔ ۔ ۔ ان کا تو اپنا ذاتی گھر بھی نہیں۔ ۔ ۔ مگر بڑے بڑے جلسے کرنے والوں کے اتنے فالوورز ہیں۔ ۔ ۔ وہ ان کا مورال ہائی کرنے کے لئے ہی کوئی بیان دیدیں۔
ہر شخص اہم ہے
وہ سرمایہ دار جس نے پورے کراچی کا پانی خرید لیا۔ ۔ ۔ عدالتیں خرید لیں۔ ۔ ۔ میڈیا خریدلیا۔
وہ بھی غائب ہے۔
سماجی بساط بھی لپیٹ دی گئی
ماروی سرمد والی سوچ ۔ ۔ ۔ والوں کا تو بھٹہ ہی بیٹھ گیا ہے۔ ۔ ۔
چلے تھے ہم جنسی پرستی کو فروغ دینے۔ ۔ ۔ کورونا نے ہر قسم کی جنس کے پاس جانے سے ہی منع کردیا۔ ۔ ۔ نقاب نوچنے آئے تھے۔ ۔ ۔ اب خود لگائے بیٹھے ہیں۔
بہت بینر دکھا دکھا کر کہتی تھیں۔
''میں گھر نہیں بیٹھوں گی''
اور انگریزی حرف M کی طرح بیٹھ کر کہتی تھیں
''لو بیٹھ گئی میں۔ ۔ ۔ ٹھیک سے''
اوکے
اب بیٹھ جا ''ٹھیک سے''۔ ۔ ۔ کمینی۔ ۔ ۔!
اور باہر مدد کو نکلے ہیں
وہی ایدھی، چھیپا، سیلانی اور نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی این جی اوز
عقیدوں کے ''عُقدے'' کھلنے کا وقت بھی آگیا ہے۔
درود و سلام کی مخالفت
مزاروں کے سجدے
قدموں کے بوسے
شبیہوں کے جلسے
عقیدوں کے تمام مظاہر ۔ ۔ ۔ معطل ہوگئے
باقی رہی تو بس۔ ۔ نماز۔ ۔ ۔
باقی رہا تو بس۔ ۔ ۔ ذکر اللہ۔ ۔ ۔
باقی رہی تو بس۔ ۔ ۔ اذان
تو کیا رب ذوالجلال نے کتاب مقدس کی ''سورۃ قیامت'' میں تمہیں چیلنج نہیں کیا کہ
''جب پہنچ جائے گلے تک اور کہاجائے
ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ۔ ۔ ۔ ؟
اور سمجھ لے گا وہ کہ اب جدائی کا وقت ہے اور لپٹ جائے پنڈلی سے پنڈلی”۔
Written by Sierra Tango
No comments:
Post a Comment