وسطی یورپ کے ملک آسٹریا نے اعلان کیا ہے کہ ‘سیاسی اسلام’ کے خلاف کارروائی کے نام سے جاری مہم کے تحت ترکی سے فنڈ لینے والے 60 اماموں اور ان کے اہل خانہ کو ملک بدر اور سات مساجد کو بند کیا جاسکتا ہے۔
آسٹریلیا کی حکمراں اتحاد میں شامل دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی سےتعلق رکھنے والے وزیرداخلہ ہربرٹ کیکل کا کہنا تھا کہ ‘ان اقدامات سے ایک حلقے کے لوگ متاثر ہوں گے اور جس گروپ کے حوالے سے ہم بات کررہے ہیں وہ 60 اماموں پر مشتمل ہے’۔
ویانا میں پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر 150 لوگوں کے والے سے خدشہ ہے وہ رہائش کا حق کھو بیٹھیں گے۔ دوسری جانب ترکی نے فوری دعمل دیتے ہوئے ان اقدامات کو رد کردیا ہے۔ صدارتی ترجمان ابراہیم کلیم نے ٹویٹر میں اپنے بیان میں کہا کہ ‘آسٹریا کی جانب سے مساجد کو بند کرنے اور اماموں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ اسلام دشمنی، نسل پرستی اور ملک کی مقبول لہر کے ساتھ امتیاز برتنے کا عکس ہے’۔ رواں سال اپریل میں مسجد میں گیلی پولی کی جنگ عظیم اول کے حوالے سے بچوں کی جانب سے پیش کیے گئے ایک ڈرامے کی سامنے آنے والی تصاویر پر تفتیش کے بعد مزید 7 مساجد کو بھی بند کردیا جائے گا۔
آسٹریا کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چانسلر سباسچن کرز کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے ملک میں متوازی معاشرے، سیاسی اسلام اور بنیاد پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے’۔ وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ ترک اسلامک کلچرل ایسوسی ایشن سے منسلک کئی اماموں کو نکال باہر کرنے کے لیے کئی کیسز پر کارروائی جاری تھی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو شبہ ہے کہ وہ مذہبی عہدہ رکھنے والے حضرات کو بیرونی فنڈ لینے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کررہے تھے۔
واضح رہے ترک اسلامک کلچرل ایسوسی ایشن ترکی کی مذہبی امور کی ایجنسی دیانت کا حصہ ہے۔ ترکی اور آسٹریا کے درمیان تعلقات کافی عرصے سے کشیدہ ہیں جبکہ آسٹریا کے چانسلر سباسچن کرز نے یورپین یونین سے کہا تھا کہ ترکی کی اس بلاک میں شمولیت کے لیے جاری مذاکرات کو معطل کردیا جائے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘یہ بداخلاق چانسلر کو ہمارے ساتھ مسئلہ ہے’۔
یاد رہے کہ آسٹریا کے حکمراں اتحاد میں شامل کرز کی پیپلز پارٹی اور ایف پی او نے گزشتہ سال اپنی انتخابی مہم میں امیگریشن اور سلامتی کو سرفہرست رکھا ہوا تھا۔ کرز نے اپنی تازہ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ انھی اقدامات کے تحت اسلامک ایسوسی ایشنز کو ریگولر کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔
No comments:
Post a Comment