مریض اس بات کا طلب گار ہوتا ہے کہ اس کی دلجوئی کی جائے، کوئی ہو جو اسکے پاس آ کر بیٹھے، اس سے باتیں کرے،اس کا حال پوچھے
رمضان المبارک سے دو دن پہلے 15مئی 2018ء کو حسب معمول عصر کی نماز پڑھ کر مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ امام صاحب پر نظر پڑی وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میں آگے بڑھا انہوں نے میرا بازو تھام لیا‘ باتیں شروع ہو گئیں۔ ہمارے امام مسجد ابو علی احمد الغامدی ریاض کے ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ میں اپنے دفتر کی ساتھ والی مسجد میں ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرتا ہوں۔ کبھی کبھار وقت ہوتا ہے تو میں امام صاحب کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔ مختلف دینی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ امریکا میں خاصی دیر تک مقیم رہے وہاں کاروبار کرتے رہے۔ سعودی عرب کے اصلی باشندے ہیں۔ لمبا قد‘ پتلا جسم‘ پھرتیلی شخصیت‘ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے آتے ہیں۔ بڑے زبردست منتظم ہیں۔ یہ مسجد جامع ہے اورکافی وسیع وعریض ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک خوبصورت باغیچہ ہے جو رات کے وقت مختلف فیملیوں سے بھر جاتا ہے۔ مسجد کے چاروں اطراف کشادہ سڑکیں ہیں ‘اس لیے پارکنگ کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا جب بھی آئیں آپ کو آسانی سے پارکنگ مل جائے گی۔
آج ملاقات ہوئی تو میں نے ایک سوال کر دیا : شیخ صاحب ! یہ بتائیے کہ آپ رمضان المبارک کے دوران مسجد کے باہر عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کرکتنی مرتبہ افطاری کرتے ہیں۔ کہنے لگے: میں اذان خود کہتا ہوںاوربازار کا کھانا بھی نہیں کھاتا۔ سفر پر جاؤں تو بھی بازار کا کھانا کھانے سے اجتناب کرتا ہوں۔ بس فروٹ پر گزارا کرتا ہوں۔ رمضان میں زیادہ تر پانی اور کھجور پر گزارا کرتا ہوں۔ باتوں کا رخ کھانے کی اعلیٰ کوالٹی سے ہوتا ہوا مریضوں کی طرف چلا گیا۔ ابو علی مجھے بتانے لگے: میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کینسر میں مبتلا دیکھا ہے۔ اس کا ایک سبب بازار کا کھانا بھی ہے۔ کہنے لگے: میں مہینہ میں ایک مرتبہ لازماً ہسپتال جاتا ہوں۔ وہاں مریضوں کی عیادت کرتا ہوں۔ اگر جیب اجازت دے تو اپنے ہمراہ کچھ تحفے بھی لے جاتا ہوں۔ انہیں مریضوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ہسپتال جا کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کن نعمتوں میں زندگی بسر کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس طرح اپنے فضل و کرم کے سایہ میں رکھا ہوا ہے۔ مریضوں کو دیکھو تمہیں اللہ یاد آ جائے گا۔ کتنے ہی ایسے ہیں جنہیں واش روم تک جانے کے لیے دوسرے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
میں ابو علی کی باتیں سنتا چلا جا رہا تھااور مبہوت تھاکہ میں نے اس خیر کے کام کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں کی۔ یہ درست ہے کہ اگر میرا کوئی دوست یا رشتہ دار بیمار ہوتا ہے تو میں اس کی عیادت کے لیے اسکے گھر یا ہسپتال جاتا ہوںمگر اس طرح پروگرام بنا کر روٹین کے ساتھ ہسپتال جانا کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ ابو علی نے ایک اور بڑی اہم بات بتائی کہ میں جب وارڈ میں داخل ہوتا ہوں تو ایک نظر ایسے مریضوں پر ڈالتا ہوں جن کی عیادت کے لیے کوئی نہیں آیا ہوتا۔ ان میں بعض اجنبی ہوتے ہیں۔
بعض ایسے مریض ہیں جن کو ہسپتال میں داخل ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں ۔ان کے اعزہ و اقارب روزانہ نہیں آ سکتے۔ اپنے کاروبار یا کاموں میں مصروف ہیں۔ ایسے مریض تیمار داری کے لیے آنے والوں کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں، ان کو سلام کہتا ہوں۔ چہرے پر مسکراہٹ لاتا ہوں: ہاں بھئی کیا حال ہے؟ ان شاء اللہ ٹھیک ہو جاؤ گے۔ انہیں تسلی دیتا ہوں۔ بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ مریض تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کوئی اس کی دلجوئی کرے۔
ابو علی اور میں کتنی ہی دیر تک اس اہم موضوع پر گفتگو کرتے رہے۔ یہ ایک سراسر ایمانی مجلس تھی۔ ہم نے مریض کی تیمارداری کے حوالے سے کتنی ہی احادیث ایک دوسرے کو سنائیں۔ آپس میں طے پایا کہ کسی روز مل کر ہسپتال جائیں گے اور مریضوں کی تیمار داری کریں گے۔ مسجد سے اٹھا تو خاصی دیر تک سوچتا رہا کہ بعض سنتوں سے ہم کتنے غافل ہیں۔ مجھ سمیت ہم میں سے کتنے ہیں جو سال میں ایک مرتبہ ہی سہی کسی ہسپتال میں عام مریضوں کی عیادت کے لیے جاتے ہوں۔
قارئین کرام! آئیے تھوڑی دیر کے لیے ہم جنت کے باغیچوں میں چلتے ہیں جہاں کتنے ہی مریض ہمارے منتظر ہیں کہ ہم ان کی صحت کے بارے میں پوچھیں۔ ان کی درد بھری داستانیں سنیں۔
جس دین کو ہم ماننے والے ہیں‘ اس کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ دین آپس میں محبت اور پیار سکھاتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی ‘نیکی اور حسن سلوک کا علمبردار ہے۔ اللہ کے رسولﷺنے اپنی امت کی اس سلسلہ میں بے حد رہنمائی فرمائی ہے۔ ایک حدیث شریف جس کے راوی سیدنا ابو ہریرہ ؓہیں،ا س میں اللہ کے نبیﷺنے ایک مرتبہ اپنے صحابہ کرام سے فرمایاکہ مسلمان کے دوسرے مسلمان پر6 حق ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! وہ کونسے حقوق ہیں؟ ارشاد ہوا :جب ملاقات کرو تو ایک دوسرے کو سلام کہو۔ جب مسلمان دعوت پر بلائے تو اسے قبول کرو۔ جب آپ سے نصیحت طلب کرے تو اسے اچھی نصیحت کرو۔ جب چھینک مارے اور ’’الحمدللہ‘‘ کہے تو اس کا جواب دو۔ یعنی اسے ’’یرحمک اللہ‘‘ کہو ۔ جب بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرو اور جب فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ میں شرکت کرو۔
مریض اس بات کا طلب گار ہوتا ہے کہ اس کی دلجوئی کی جائے ۔ کوئی ہو جو اسکے پاس آ کر بیٹھے‘ اس سے باتیں کرے‘ اس کا حال پوچھے‘ اس کی تیمار داری کرے۔ سیدنا قیس بن سعد بن عبادہؓ بڑے مشہور صحابی ہیں۔ ان کا گھرانہ بڑا سخی تھا۔ اللہ نے انہیں خوب دے رکھا تھا۔ بنو خزرج کے اس سردارابن سردار سے بہت سے لوگ قرض لے جاتے تھے۔ ضرورتمند لوگ قرض لے تو لیتے ہیں مگر اس کی واپسی اتنی آسان نہیں ہوتی ۔ ایک مرتبہ قیس بیمار ہو گئے۔ اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ لوگ انکی تیمار داری کے لیے آئیں مگر بنو خزرج کے اس سردار کا گھر مہمانوں سے خالی ہے۔ بیوی سے پوچھا: میں بیمار ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ میری تیمار داری کے لیے نہیں آئے؟!بیوی کہنے لگی: آپ کو معلوم ہے کہ مدینہ کے اکثر لوگوں نے آپ سے قرض لے رکھا ہے۔ ان کے وعدے گزر چکے ہیں مگر وہ قرض واپس نہیں کر سکے۔ وہ آپ سے شرمندہ ہیں اور آپ کا سامنا کرنے سے کترارہے ہیں۔
قیس کہنے لگے: اچھا! تو یہ بات ہے کہ لوگ قرض واپس نہ کرسکنے کی وجہ سے میری تیمار داری کے لیے نہیں آئے۔ کہنے لگے: برا ہو ایسے مال کا! جو لوگوں کو میری تیمار داری سے روک رہا ہے۔ منادی کرنے والے کو بلایا۔ اس سے کہا: جاؤ !مدینہ کے بازاروں میں اعلان کر دو کہ جس کسی نے قیس بن سعد کا قرض دینا ہے ،قیس کی طرف سے اعلان ہے کہ ا س کا قرض معاف کیا جا تا ہے۔
اعلان کرنے کی دیر تھی کہ لوگ اتنی کثرت سے ان کے گھر تیمار داری کیلئے آتے ہیں کہ گھر کے دروازے کی دہلیز ٹوٹ جاتی ہے۔
ایک دن اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: تم میں سے کون ایسا شخص ہے جس نے آج روزہ رکھا ہوا ہے؟ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! میں نے آج روزہ رکھا ہوا ہے۔
آپﷺنے پوچھا :آج تم میں سے کس نے کسی مسلمان بھائی کا جنازہ پڑھا ہے؟سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! میں نے جنازہ پڑھا ہے۔
ارشاد ہوا : آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ ابوبکر صدیقؓ عرض کر رہے ہیں: اللہ کے رسولﷺ! میں نے آج مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔
آپﷺنے پوچھا کہ آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ہے ؟ ابوبکر صدیقؓ عرض کرتے ہیں: اللہ کے رسولﷺ!میں نے آج مریض کی عیادت کی ہے۔ آپ ﷺ اپنی زبان اقدس سے یہ الفاظ ارشاد فرماتے ہیں: مَا اجْتَمَعْنَ فِي اِمْرِئٍ إلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ(رواہ مسلم)۔ ’’جس شخص میں یہ ساری خوبیاں جمع ہوجائیں وہ یقینا جنت میں جائے گا۔‘‘
قارئین کرام! ذرا غور کیجیے! ان خوبیوں میں سوائے روزے کے باقی ساری خوبیاں اخلاق حسنہ اور دوسروں سے حسن سلوک کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اللہ کے رسولﷺنے اپنی امت کے مریض کی عیادت کے اجر و ثواب کے حوالے سے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کی بیمار پرسی کی ،وہ جب تک اس کے پاس رہے جنت کے باغیچہ میں رہتا ہے۔‘‘
وہ لوگ کتنے خوش قسمت اور خوش نصیب ہیں جو اپنی گوناں گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر اہتمام کے ساتھ ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور ایسے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ انہیں سلام کرتے ہیں۔ ان کے پاس بیٹھتے ہیں۔ ان کے چھوٹے موٹے کام کر دیتے ہیں۔
قارئین کرام! آئیے،ذرا تھوڑی دیر کے لیے اپنے پیارے رسول اور نبی کریمﷺکے اسوہ حسنہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپﷺکو جب معلوم ہوتا کہ فلاں صحابی مریض ہے تو آپﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے حتیٰ بعض اوقات کسی یہودی کے بارے میں آپ ﷺکو معلوم ہوتا کہ وہ مریض ہے تو آپﷺ اس کی تیمار داری کے لیے بھی تشریف لے جاتے۔ یہ آپ ﷺکا اعلیٰ اخلاق بھی تھا اور اپنی امت کو درس دینا بھی مطلوب تھا ۔
آپﷺ کو معلوم ہوا کہ ایک یہودی لڑکا بیمار ہے۔ یہ آپﷺ کا ہمسایہ بھی تھا اور کبھی کبھار آپﷺ کی خدمت بھی کیا کرتا تھا۔ آپﷺاس کی تیمار داری کے لیے اسکے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔ اس کی خوش قسمتی کے کیا کہنے کہ اللہ کے رسول ﷺاسکے گھر تشریف لے گئے۔ آپﷺ نے اس کی تیمار داری کی۔ اس کے جسم پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرااور فرمایا کہ اسلام قبول کر لو۔ لڑکے کا والد بھی اپنے بیٹے کے سرہانے موجود تھا ۔اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا گویا وہ اپنے والد سے اسلام قبول کرنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔والد نے اپنے بیٹے سے کہا:’’أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ ’’بیٹے! ابو القاسم کی بات مان لو۔‘‘
بیٹے نے اللہ کے رسولﷺکی بات تسلیم کر لی اور کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو ا اور اِس جہان فانی سے رخصت ہوا۔
قارئین کرام! ذرا غور کیجیے،اللہ کے رسولﷺ اس کائنات کی مصروف ترین شخصیت ، اپنے تمام کاموں کو چھوڑ کر ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ ذرا اس پر بھی غور کیجیے کہ مریض کوئی مسلمان نہیں بلکہ یہودی ہے۔ آپﷺاس طرح اپنی امت کو سکھانا اور بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں عیادت کی کیا اہمیت ہے۔غیر مسلم بھی اگر آپﷺ کا ہمسایہ یا محلے دار ہے تو اس کی بھی مزاج پرسی کرنا سنت رسول کریم ﷺہے۔
اللہ کے رسولﷺاپنی امت کے ہر فرد کے ساتھ نہایت رحم کرنیوالے ہیں۔ آپﷺکے عہد میں ایک صحابیہ جن کا نام ام السائبؓ تھا، یہ بوڑھی انصاریہ خاتون تھیں۔ آپﷺکو معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں ، تو آپ ﷺانکی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺکے بلند اخلاق کو ملاحظہ کیجیے ،نبی رحمتﷺامت کو سکھا رہے ہیں کہ اگر کوئی عورت بھی بیمار ہے تو اس کی عیادت کے لیے بھی جایا جا سکتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺجب ان کے پاس پہنچے تو انہیں سخت بخار تھا۔ جسم گرم تھا‘ ام السائب بوڑھی خاتون ‘ بخار کو کوس رہی ہیں‘ برا بھلا کہہ رہی ہیں‘ گالی دے رہی ہیں کہ اس بخار کا برا ہو وغیرہ وغیرہ۔ اللہ کے رسولﷺاپنی صحابیہ کو نصیحت فرما رہے ہیں: ام السائب! بخار کو گالی نہ دو۔ اسے برا بھلا نہ کہو۔ بخار سے بنی آدم کے گناہ اس طرح صاف ہو جاتے ہیں جس طرح گرم بھٹی میں لوہے کو ڈالا جائے تو اس کا زنگ صاف اور دور ہو جاتا ہے۔
اللہ کے رسولﷺبہترین معلم ہیں۔لوگوں کو عیادت کا طریقہ بتا رہے ہیں۔مریض کو صبر کی تلقین فرما رہے ہیں۔ لَا بَأْسَ طَہُورٌ إِنْ شَائَ اللّٰہُ جیسے کلمات سکھا رہے ہیں۔اسلام نے تعلیمات دی ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھیں۔ اس کے ساتھ پریشان کرنے والی‘ مایوس کرنے والی اورتکلیف دینے والی باتیں نہ کریں بلکہ اسے تسلی دیں اور اسکے لیے شفائے کاملہ کی دعا کریں۔
بعض لوگ مریض کے پاس جاتے ہیںتو اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں‘ اس سے پرانی کہانیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اچھا! آپ کو کیا تکلیف ہے؟ کب سے ہے۔ مریض نے بتایا کہ مجھے فلاں مرض ہے۔ اتنی دیر سے پرانا ہے‘ اچھا تو میرا چچا اللہ بخشے وہ بھی اسی مرض سے فوت ہو گیا تھا۔ میرا پھوپھا بھی اسی بیماری کے سبب قبرستان پہنچ گیا تھا۔
قارئین کرام! اب آپ خود ہی بتائیے ‘مریض کی کیا حالت ہو گی۔ وہ تو پہلے ہی بیمار ہے اس قسم کی گفتگو اسے مزید بیمار کر دیگی۔
آگے بڑھنے سے پہلے عرض کروں گا کہ مریض کی تندرستی میں ڈاکٹرکے رویہ کا بہت بڑا کردا رہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے چند محبت بھرے اور تسلی بخش جملے مریض کو ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں۔
مریض کی عیادت کا اجر و ثواب جاننے کے لیے آئیے ہم اللہ کے رسولﷺکی ایک حدیث پڑھتے ہیں۔ فرمایا: جو شخص مریض کی عیادت کے لیے جاتا ہے گویا وہ اللہ کی رحمت میں چل رہا ہوتا ہے۔ اس شخص پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے جو مریض کی عیادت کرتا ہے۔ اس شخص کو مبارک ہو‘ اس کی خوش قسمتی کے کیا کہنے جو اللہ کی رضا کے لیے مریض کی عیادت کرتا ہے۔
قارئین کرام! کبھی کبھار مہینہ میں ایک بار‘ 2یا3 ماہ میں ایک بار یا کم از کم سال میں ایک مرتبہ ہسپتال ضرور جائیں۔ مریضوں کو ملنے کے اوقات میں مردوں کے وارڈ میں۔ اگر ہسپتال میں خاتون مریضہ ہیں تو انکی مزاج پرسی کے لیے گھر کی خواتین کو ہمراہ لے کر جائیں ۔
وارڈ میں جائیں‘ مریضوں کو سلام کریں‘ ان کا حال پوچھیں‘ ان کے لیے دعا کریں۔ اگر آپ کے حالات اجازت دیتے ہیں تو چھوٹا موٹا تحفہ لے کر جائیں۔ عصیر لے جائیں ‘ کیک یا کھانے کی کوئی دوسری چیز لے جائیں۔ اللہ کے رسولﷺنے ایک مریض کی عیادت فرمائی تو ارشاد فرمایا: اللَّھُمَّ رَبَّ النَّاسِ! أَذْہِبِ الْبَاسَ‘ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ‘ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔’’اے اللہ! لوگوں کے رب! اس بیماری کو دور فرما دے اور اس مریض کو شفا عطا فرما کیونکہ تیرے سوا کسی کے پاس شفا ہے ہی نہیں ایسی شفا جو بیماری کا خاتمہ کر دے۔‘‘
قارئین کرام! اللہ کے رسول ﷺجب کسی مریض کے پاس جاتے تو اپنا دایاں ہاتھ اسکے جسم پر پھیرتے اور مذکورہ کلمات ارشاد فرماتے ۔ یاد رہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم میں آئی ہے اس لیے صحیح ہے۔
اسی طرح اللہ کے رسولﷺنے ہمیں بتایا ہے کہ کوئی مسلمان کسی ایسے مریض کی بیمار پرسی کرے جس کی موت کا وقت نہ آ پہنچا ہو اور 7 دفعہ یہ دعا پڑھتے تو اللہ تعالیٰ اسے صحت عطا فرما دیتا ہے۔
قارئین کرام ! ان الفاظ کو یادکر لیجیے: أَسْأَلُ اللّٰہَ الْعَظِیمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمَ أَنْ یَشْفِیَک۔ ’’میں سوال کرتا ہوں بڑی عظمت والے اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے کہ وہ تمہیں شفاء عطا فرمائے۔‘‘
قارئین کرام! مریضوں کی عیادت کی باتیں بہت زیادہ ہیں ۔ اس میں فضیلت ہی فضیلت ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ ہسپتال میں یا کسی کے گھر میں گئے یا بازار میں آپ کو ایسا شخص نظر آتا ہے جو ایسی بیماری میں مبتلا ہے کہ اسے دیکھ کر آپ کا دل سہم جاتا ہے۔ آدمی کہتا ہے: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس قسم کی بیماری سے محفوظ رکھا ہے۔
آئیے ایک حدیث پڑھتے ہیں۔ جامع ترمذی حدیث نمبر 2343میں ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: اگر کوئی شخص کسی بیماری میں مبتلا شخص کو دیکھے اور یہ دعا پڑھ لے تو وہ اس بیماری میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے گا۔ چاہے کوئی بھی بیماری ہو: الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِي عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً۔
یہ دعا آہستہ پڑھے تو بہتر ہے ۔
تحریر۔ عبدالمالک مجاھد - ریاض
No comments:
Post a Comment